از: محمد قمر انجم قادری فیضی
مدیر اعلی مجلہ جام میر بلگرام شریف
انسان فطری طور سے متجسس اور حالات زمانہ سے باخبر رہنے کا خواہش مند رہا ہے، اس کی یہ خواہش مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے پوری ہوتی رہی ہے۔تقریر کے ساتھ تحریر بھی اخبار واعلام کا معقول ذریعہ رہی ہے، شروع میں تحریریں پتھروں اور ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں، پھر معاملہ درختوں کی چھال اور جانوروں کی کھال تک پہنچا۔ زمانہ نے ترقی کی تو کاغذ اورپریس وجود میں آئے۔ جس کے بعد صحافت نے بے مثال ترقی کی، صحافت سے بگڑی ہوئی زبانیں سدھرتی ہیں، جرائم کی نشان دہی اور بیخ کنی ہوتی ہے، دوریاں قربتوں میں ڈھلتی ہیں، معاشرتی واقعات وحوادث تاریخ کی شکل میں مرتب ہوتے ہیں۔ بالخصوص نظریاتی اور اسلامی صحافت معاشرہ کی مثبت تشکیل ، فکری استحکام، ملکی ترقی کے فروغ ، ثقافتی ہم آہنگی ، تعلیم وتربیت، اصلاح وتبلیغ ، رائے عامہ کی تشکیل ، خیر وشر کی تمیز اور حقائق کے انکشاف میں بہت مدد دیتی ہے۔صحافت ایک امانت ہے، اس کے لیے خدا ترسی ،ادبی لیاقت واہلیت اور فنی قابلیت شرط اول ہے۔ عصر حاضر میں بدقسمتی سے بہت سے ایسے لوگوں نے صحافت کا پیشہ اختیار کر لیا ہے جن میں دینی اور اخلاقی اقدار کے فقدان کے ساتھ مطلوبہ اہلیت بھی نہیں ہے ، اصول اور کردار کے لحاظ سے نہایت پست اور غیر ذمہ دار ہیں، مغربی یلغار کی حمایت اور الحادی افکار کی ترویج واشاعت کرنے میں سر گرم ہیں ۔حالاں کہ صحافت ایک خیر آور اور عظیم الشان پیشہ ہے، جس کے ذریعے ملک وملت کی بہترین خدمت کی جاسکتی ہے ۔ اسلامی صحافت قوم کے ذہنوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ ان کی فکری راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ لوگوں کو ظلمات سے نکال کر نور ہدایت کی طرف لاتی ہے، برے کاموں سے روکتی اور اچھے کاموں کی ترغیب دیتی ہے۔
زمانہ قدیم ہی سے جماعت اہل سنت نےصحافت کی اسی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس میں بھرپور انداز میں حصہ لیا ہے اور بے شمار رسائل و جرائد اور اخبارات کے ذریعے اصلاح معاشرہ کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ہے۔
مشہور ناقد ومضمون نگار جناب سہیل انجم اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
"ہندوستان میں ادبی رسائل کی ایک بھرپور تاریخ موجود ہے۔ یہاں صحافت کے آغاز کے ساتھ ہی اخباروں میں ادبی نگارشات بھی شائع ہونے لگیں۔ رفتہ رفتہ ادبی جریدوں نے جنم لیا اور انھی جریدوں کی گود میں ادب پارے پرورش پانے لگے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ملک کا کوئی بھی قابل ذکر شہر ایسا نہیں ہے جہاں سے رسالے شائع نہ ہوتے ہوں۔ ماضی کی خاک چھانیں تو نگار، شاہراہ، مخزن، ساقی، کنزالایمان، جام نور، اور اس نوع کے دیگر بہت سے رسائل نظر آئیں گے جنھوں نے اپنے عہد کو بڑی حد تک متاثر کیا اور ایک سے بڑھ کر ایک اچھے ادیب پیدا کیے۔ آگے چل کر ’بیسویں صدی‘ اور ’شب خون‘ جیسے رسالوں نے ایک طویل عرصے تک اہل ذوق افراد کی ذہنی آبیاری کی۔
لیکن آج پہلے کے مقابلے میں حالات بدل گئے ہیں۔ پہلے ذہنی تفریح کا ذریعہ صرف اخبارات و رسائل ہی ہوا کرتے تھے۔ مگر آج صورت حال میں انقلابی تبدیلی آگئی ہے۔ یہ انٹرنیٹ اور سائبر کا دور ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ یہ صارفیت کا بھی عہد ہے۔ بدلے ہوئے حالات نے جہاں بہت سی چیزیں بدل دی ہیں وہیں رسائل و جرائد پر بھی اثر پڑا ہے۔ اس عہد میں سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا آج بھی رسالوں کی وہی معنویت اور اہمیت ہے جو پہلے تھی اور اسی کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جو رسالے نکل رہے ہیں ان کا مستقبل کیا ہے؟ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو زمانہ خواہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سماجی ارتقا کی شہ رگ ہی کیوں نہ بن جائے رسائل اور بالخصوص ادبی رسائل کی اہمیت اور معنویت ہمیشہ باقی رہے گی۔ یہ بات الگ ہے کہ ان کی تعداد اشاعت میں تخفیف ہو جائے لیکن بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ادبی ذوق کی پرورش میں ان کا رول ہر دور میں مسلم رہے گا۔ کیونکہ انسان کے، مادی ضرورتوں کے حصار میں جکڑے رہنے کے باوجود اس کو ذہنی غذا کی بھی ضرورت ہوگی اور اس غذا کی فراہمی میں رسالے سب سے تیز اور مؤثر ذریعہ ہیں"۔
ہندوستان کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر معاشرہ جس طرح کی جہالت، بدذوقی اور سفّاکی کا شکار ہورہا ہے، ہمیں پاکیزہ مذہبی صحافت اور قومی وملی سطح پر قلمی جہاد کرنے والے ادیبوں کی بے حد ضرورت ہے، جن کی تحریریں نہ صرف معاشرے کی عکاس ہوں، بلکہ قلوب و اذہان میں شعور کی روشنی بھی بڑھا سکیں۔ عہدِ حاضر میں نبیرہ شعیب الاولیا شہزادہ حضور چشتی میاں جامع علوم وفنون، پیر طریقت حضرت علامہ حافظ وقاری صاحب زادہ محمد افسر علوی مدظلہ العالی سہ ماہی مجلہ پیام شعیب الاولیا براؤں شریف کی مسلسل اشاعت کا نہایت عظیم کارنامہ انجام دے رہے ہیں، ان کے حوصلے کی داد دینی چاہیے۔ آپ اردو دنیا اور دبستانِ علم وفن میں محتاج تعارف ہیں ۔ نہایت فعال، متحرک اور سرگرم انسان ہیں۔ ہمہ وقت علمی، ادبی اور تعمیری سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ انہوں نے جمود وتعطل کے حصار میں کبھی بھی خود کومقید نہیں رکھا۔ آپ کے اندر فلک پر کمندیں ڈالنے کا جذبہ وحوصلہ ہے۔
آج کے وقت میں کوئی مجلہ شائع کرنا بہت ہی جانفشانی، اور کدو کاوش والا کام ہے ۔چناں چہ سیپ کے مدیر نسیم درانی نے ماہنامہ یا مجلہ شائع کرنے کے بارے میں ایک انٹرویو میں کہا تھا:" یہ گھر پھونک، تماشا دیکھ والا، معاملہ ہے‘‘۔ اس کے باوجود خانقاہی دینی ادبی علمی فکری، رسالہ مجلہ سہ ماہی پیام شعیب الاولیا کے چیف ایڈیٹر پیر طریقت حضرت علامہ حافظ وقاری صاحبزادہ محمد افسر علوی مدظلہ العالی خانقاہ یارعلویہ براؤں شریف اور آپ کے تمام معاونین جو اس اعلیٰ علمی، فکری اور ادبی روایت کی وراثت کو سنبھالے ہوئے ہیں مبارک باد کے مستحق ہیں۔
سہ ماہی مجلہ پیام شعیب الاولیا حسن باطنی کے ساتھ جمال ظاہری کا بھی حامل ہے، کتابت وطباعت میں اعلیٰ معیار رکھتا ہے ، مضامین کی پیش کش عمدہ اور ترتیب و تدوین خوش کن ہے ۔
یہ چیزیں تو اور بھی جگہوں پر ہوتی ہیں، مگر کسی بھی میگزین یا کتاب کی صوری خوبی کے ساتھ اصل خوبی اس کے پیغام کی اہمیت اور اس کے مندرجات کی انفرادیت ہے۔ اس مجلے کی خوبی یہ ہے کہ قاری آسانی کے ساتھ اسے دیکھتا اور پڑھتا چلا جاتا ہے۔ نئی نسل کے جذبات اور تعمیری اہداف سے واقفیت حاصل کرتا ہے اور مسلم دانش وروں کی تخلیقی سوچ سے متعارف ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ رسالہ صاحب زہد و تقویٰ،مصدر فضل وکمال، منبع علم و حکمت، شیخ طریقت، نبیرۂ شعیب الاولیا و شہزادۂ مظہر شعیب الاولیاء حضرت علامہ الحاج الشاہ غلام عبد القادر چشتی علیہ الرحمہ سابق نائب ناظم اعلیٰ دارالعلوم اہلسنت فیض الرسول براؤں شریف کی سرپرستی میں ان کے دورحیات ہی میں براؤں شریف سے منصہ شہود پر جلوہ فگن ہوگیا تھا اور بحمدہ تعالیٰ بہت کم عرصے میں اپنے قارئین کا محبوب و مقبول رسالہ بن گیاتھا۔ اب تک یہ رسالہ پریس میں چھپ بھی رہا تھا اور آن لائن بھی شائع ہورہا تھا۔ لیکن اب مستقبل میں اشاعت میں دشواریاں آرہی ہیں۔ لہذا آپ اس خانقاہی مجلے کا تعاون ضرور کریں، ممبر سازی میں حصہ ضرور لیں، اس کار خیر میں شریک ہوں، اپنے احباب کو بھی شریک کریں تاکہ دینی، مذہبی، ملی، دعوتی، اصلاحی اور ادبی سہ ماہی مجلہ پیام شعیب الاولیاء پوری آن بان شان کے ساتھ شائع ہو کر دین برحق کی ترویج واشاعت کرتا رہے.
تمام قارئین، اردو ادب سے لگاؤ رکھنے والے تمام محبان اردو نیز خانقاہ یارعلویہ کے تمام محبین،متوسلین،معتقدین سے امید قوی ہے کہ آپ حضرات اس رسالے کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا کر مذہبی صحافت کے ساتھ مسلک اعلی حضرت کی ترویج واشاعت میں اہم رول ادا کریں گے ۔
مسلک اعلی حضرت کا نقیب، خانقاہ یارعلویہ کا ترجمان سہ ماہی پیام شعیب الاولیاء براؤن شریف کا تعاون ہم سب کا قومی ملی فریضہ ہے ۔
0 تبصرے