انسانی زندگی پر گناہوں کے منفی اثرات
از قلم: طفیل احمد مصباحی
معصیت یا گناہ شقاوت و بد بختی کی علامت اور دنیا و آخرت میں ہلاکت و خسران کا سبب ہے ۔ گناہوں کے باعث عبادت کی توفیق چھین لی جاتی ہے اور طاعت کی قوت کمزور اور مضمحل ہو جایا کرتی ہے ۔ گناہوں کا دلدادہ انسانیت و شرافت کا لبادہ اتار کر حیوانیت کا رقص کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے ۔ معصیت ، ظلمت کا دوسرا نام ہے ، جس سے ایوانِ حیات میں ہر طرف اندھیرا اور مہیب سناٹا دامن پسارے نظر آتا ہے ۔ گناہوں کی وجہ سے عبادت کی لذت ختم ہو جاتی ہے ۔ غرض کہ انسانی زندگی پر گناہوں کے بڑے بھیانک نتائج اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
گناہوں کا وبال قرآن کی روشنی میں:
اللہ رب العزت نے جہاں قرآنِ مقدس میں اعمالِ صالحہ کی انجام دہی پر جنت اور اس کی نعمتوں کی بشارت دی ہے ، وہاں گناہوں کے ارتکاب پر وعید بھی سنائی ہے ۔ وعدہ و وعید اور ترغیب و ترہیب دونوں پہلوؤں پر قرآن نے روشنی ڈالی ہے ۔ [ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ و من یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ ] قرآن کا اٹل فیصلہ ہے ۔" الدنیا مزرعۃ الآخرۃ " دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دنیا دار العمل و الامتحان بھی ہے ۔ اللہ رب العزت آخرت میں بندوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا و سزا دے گا ۔ لیکن اچھے کاموں کا ثمرہ و نتیجہ اور گناہوں کی نحوست کا اثر دنیا ہی میں ظاہر فرما دیتا ہے ۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ اس پر شاہد ہے :
مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۔
یعنی جو کوئی نیک کام کرے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو ، تو ہم اُسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے ۔
( قرآن الکریم ، سورۃ النحل ، آیت نمبر : ۹۷ )
اس آیتِ کریمہ سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ عملِ صالح ( اچھا کام ) پاکیزہ زندگی اور پُر سکون حیات کا سبب ہے اور اللہ رب العزت نے ایمان و عملِ صالح کے نتیجے میں " حیٰوۃً طیبۃً " یعنی اچھی ، پاکیزہ ، عمدہ اور پُر سکون زندگی عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ۔ اس سے ایک عام پڑھا لکھا آدمی بھی یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ اگر صورت اس کے بر عکس ہو ، یعنی انسان ایمان کے بجائے کفر و الحاد یا اعمالِ سیّئہ ( بُرے کاموں ) میں مبتلا ہو تو اسے " حیاتِ طیّبہ " کے بجائے " حیاتِ سیّئہ " میں مبتلا کر دے گا اور اسے پاکیزہ زندگی کے بجائے مصیبت اور مشکل بھری زندگی کے جہنم میں جھونک دے گا ۔
انسانی زندگی پر گناہوں کے منفی اثرات مرتب ہونے سے متعلق سورۂ طٰہٰ کی یہ آیت بھی ہمیں بار بار متنبہ کرتی ہے : وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً ۔
ترجمہ : اور جو شخص میرے ذکر ( نصیحت ) سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے ( دنیا و آخرت میں ) تنگی کا جینا ہوگا ۔
تفسیرِ ابنِ عباس میں " معیشۃ ضنکاً " کی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے:
قال الإمام البخاری : قال ابن عباس رضی اللہ عنہما : [ ضنکاً ] الشقاء ........... و الضنک ھو الضیق و الشدۃ و تفسیرہ بالشقاء من التفسیر باللازم لأن الشقاء لازم للضیق و ناتج عنہ ۔ امام بخاری نے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس آیت میں " ضنکاً " سے شقاوت یعنی بد بختی مراد ہے ۔ " ضنک " در اصل تنگی اور شدت و مصیبت کو کہتے ہیں ۔ اس کی تفسیر " شقاوت " سے کرنا اقرب الی الصواب ہے ، کیوں کہ شقاوت تنگی کو لازم ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ہے ۔
( تفسیرِ ابن عباس ، ص : ۶۲۵ ، مطبوعہ : جامعہ ام القریٰ ، مکۃ المکرمہ )
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی نہیں کرتا ، دن رات اس کی نافرمانی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دنیا کی زندگی تنگ کر دیتا ہے اور اسے غربت و تنگدستی میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ اگر وہ مالی طور پر مضبوط بھی ہو تو اس کے رزق سے برکت اٹھا لی جاتی ہے اور سکونِ قلب کی دولت اس سے چھین لی جاتی ہے ۔ خلاصۂ کلام یہ کہ اللہ عز و جل کی فرماں برداری خوش حالی زندگی کی ضمانت ہے اور اس کی نا فرمانی ذلت و نکبت ، تنگدستی اور معاشی انحطاط کا سبب ہے ۔
اللہ عز و جل کے حکم سے منہ موڑنا اور اس کے اوامر و نواہی کے خلاف کام کرنا ، معصیت کے زمرے میں آتا ہے اور یہ حکم عدولی عذابِ الہٰی کا سبب ہے ۔ سورۂ اعراف کی آیت ہے : [ فلما عتوا عن ما نھوا عنہ قلنا لھم کونوا قردۃ خٰسئین ] پھر جب انہوں نے ممانعت کے حکم سے سرکشی کی ، ہم نے ان سے کہا : ہو جاؤ دھتکارے ہوئے بندر ۔ اللہ کی رحمت اس کے غضب پر اور اس کا فضل اس کے عدل پر غالب ہے ۔ اللہ کی رحمت مجرموں کو مہلت دیتی ہے اور گنہگاروں کو موقع دیتی ہے کہ وہ راہِ راست پر آ جائیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ مجرموں کو ان کے جرائم پر مواخذہ شروع فرما دے تو وہی ہوگا جس کا ذکر قرآن مقدس میں یوں ہوا ہے :
[ و لو یؤاخذ اللہ الناس بما کسبوا ما ترک علیٰ ظھرھا من دابۃ ] اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے کرتوت پر پکڑتا ( مواخذہ کرتا ) تو روئے زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا ۔ الامان و الحفیظ !!
گناہوں کا وبال حدیث کی روشنی میں
أخبرنا مَالِك ، أخبرنا يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ عَنْ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ : مَا ظَهَرَ الْغُلُولُ فِي قَوْمٍ قَطُّ إِلَّا أُلْقِيَ فِي قُلُوبِهِمْ الرُّعْبُ وَلَا فَشَا الزِّنَا فِي قَوْمٍ قَطُّ إِلَّا كَثُرَ فِيهِمْ الْمَوْتُ وَلَا نَقَصَ قَوْمٌ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِلَّا قُطِعَ عَنْهُمْ الرِّزْقُ وَ لَا حَكَمَ قَوْمٌ بِغَيْرِ الْحَقِّ إِلَّا فَشَا فِيهِمْ الدَّمُ وَلَا خَتَرَ قَوْمٌ بِالْعَهْدِ إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ الْعَدُوَّ
( مؤطا امام محمد ، ابواب السِیر ، ص : ۳۶۸ ، ۳۶۹ ، ناشر : مجلسِ برکات ، مبارک پور )
ترجمہ : حضرتِ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جس قوم میں مالِ غنیمت کی چوری رائج ہوجائے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں دشمن کا رعب اور ہیبت ڈال دیتا ہے اور جس قوم میں زنا کاری و بے حیائی عام ہو جاتی ہے ، اس میں کثرت سے موتیں واقع ہوتی ہیں اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کا رزق قطع ( تنگ ) کر دیتا ہے اور جو قوم حق کے خلاف فیصلہ کرتی ہے ، اس میں قتل و غارت اور خون ریزی عام ہوجاتی ہے اور جو قوم وعدہ خلافی کرتی ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر اس کے دشمن کو مسلط فرما دیتا ہے ۔ اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ مالِ غنیمت میں چوری ، بے حیائی زنا کاری ، ناپ تول میں کمی اور وعدہ خلافی ایسے سخت گناہ ہیں کہ ان کے اثرات و عواقب دنیا ہی میں ظاہر ہونے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ مجرموں کے سروں پر مذکورہ عذاب و عقاب دنیا میں مسلط فرما دیتا ہے ۔ نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا ۔
کثرتِ معصیت سے دل کا سیاہ ہونا:
انسانی زندگی پر گناہوں کے منفی اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ گناہوں کی کثرت سے دل سیاہ اور پتھر کی مانند سخت ہو جاتا ہے اور نیکیوں کی طرف اس کا میلان کم ہو جاتا ہے ۔ معلمِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے :
إنَّ المؤمنَ إذا أذنبَ كانت نُكتةٌ سوداءُ في قلبِه ، فإن تَابَ وَ نَزَعَ وَ اسْتَغْفَرَ صُقِل قَلْبُہ فَإن زَادَ زَادَتْ فذلك الرَّانُ الَّذي ذكر اللهُ في كتابِه : كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ۔
( سننِ ابنِ ماجہ ، کتاب الزھد ، حدیث نمبر : ۴۲۴۴ ، ص : ۱۴۱۸ ، مطبوعہ : دار احیاء الکتب العربیۃ ، بیروت )
ترجمہ : مومن جب گناہ کرتا ہے تو دل پر ایک سیاہ نقطہ (دھبہ) پڑ جاتا ہے ۔ پھر اگر وہ توبہ و استغفار کر کے گناہوں سے الگ ہو جائے تو اس کا دل صاف وصیقل کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ توبہ و استغفار نہ کرے اور گناہوں میں زیادتی کا مرتکب ہوتا رہے تو وہ سیاہ دھبہ پھیل جاتا ہے ( اور پورے دل پر چھا جاتا ہے ) اور یہ گناہوں کا وہی میل ( زنگ ) ہے جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن نے میں ذکر فرمایا ہے : کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا جاتا ہے ان کی کمائیوں ( کرتوتوں ) کی وجہ سے ۔
اس حدیث پاک سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں ۔ اول : یہ کہ گناہوں کا اثر براہِ راست انسان کے دل پر پڑتا ہے ۔ انسان جب جب معصیت کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی وجہ سے دل پر ایک کالا نقطہ ( دھبہ ) پڑ جاتا ہے اور کثرتِ گناہ کے سبب انسان کا دل سخت کالا ہو جاتا ہے ۔ دوم : یہ کہ توبہ و استغفار سے گناہوں کے میل دُھل جاتے ہیں ، دل حسبِ سابق آئینہ کے مثل چمکنے لگتا ہے اور توبہ طہارتِ قلب و نظر کا سبب ہے ۔
ترکِ معصیت سے متعلق حضور ﷺ کی پیاری نصیحت :
معلمِ کائنات ، فخرِ موجودات ، جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ طیبہ کا مقصد کتاب وحکمت کی تعلیم اور گناہوں سے اذہان و قلوب کی تطہیر تھا ۔ تزکیۂ نفس و تطہیرِ باطن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ چوں کہ معصیت بنتی ہے ، اس لیے آپ نے گناہوں کی جڑ کو اکھاڑ پھینکنے کی بھرپور کوشش فرمائی اور معصیت کی آلودگیوں سے محفوظ ایک ایسا صاف و شفاف معاشرہ تشکیل دیا ، جس میں نیکیوں کی حکمرانی تھی اور گناہوں کا شائبہ تک نہیں تھا ۔ ایک روز حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا بارگاہِ رسالت میں عرض گذار ہوئیں کہ یا رسول اللہ ! مجھے کچھ نصیحت فرمائیں : آپ نے ارشاد فرمایا : اھجری المعاصی فانھا افضل الھجرۃ و حافظی الفرائض فانھا افضل الجھاد و اکثری من ذکر اللہ فانک لا تاتی اللہ بشیٔ احب الیہ من کثرۃ ذکرہ ۔
( المعجم الکبیر للطبرانی ، جلد : ۲۵ ، ص : ۱۲۹ ، حدیث نمبر : ۳۱۳ ، مطبوعہ : مکتبہ ابن تیمیہ ، قاھرہ )
ترجمہ : گناہوں سے ہجرت کر لو یعنی گناہوں کو چھوڑ دو ، کیوں کہ یہ سب سے بڑی ہجرت ہے ۔ فرائض کی پابندی کرو ، کیوں کہ یہ افضل ترین جہاد ہے اور کثرت سے اللہ عز و جل کا ذکر کرو ، کیوں کہ اللہ کی بارگاہ میں کثرتِ ذکر سے زیادہ کوئی محبوب عمل لے کر تم خدا کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہوگی.
حدیث پاک کی صراحت کے مطابق علم ایک نور ہے اور معصیت ظلمت ہے اور نور و ظلمت میں تضاد ہے ۔ دونوں کا اجتماع محال ہے ۔ جس دل میں معصیت کی ظلمت ہوگی ، وہاں علم و حکمت کا نور اور فکر و نظر کا چراغ نہیں جل سکتا ۔ نورِ علم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا دل گناہ کی نحوست اور معصیت کی تاریکی سے پاک ہو ۔ گناہ نہ صرف یہ کہ علم سے محرومی کا سبب ہے ، بلکہ حافظے کی خرابی کی بھی ایک بڑی وجہ ہے ۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک مرتبہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ عزیزم ! علم ایک نور اور ایک چراغ ہے ، اس کو گناہوں کی ظلمت سے بجھنے مت دینا ۔ اسی طرح حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاذ حضرت امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ سے قوتِ حافظہ کمزور ہونے کی بابت استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا : گناہ کرنا چھوڑ دو ، قوتِ حافظہ درست اور مضبوط ہو جائے گی ۔ کیوں کہ علم ، اللہ کا نور ہے اور نورِ الہیٰ کسی گنہگار کے حصے میں نہیں آتا ۔
شکوت الیٰ وکیع سوء حفظی
فاوصانی الیٰ ترک المعاصی
فان العلم نور من الہٰ
و نور اللہ لا یعطیٰ لعاصی
رزق سے محرومی :
گناہوں کی نحوست کی وجہ سے بندہ علم و حکمت کے علاوہ رزق و دولت سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دسترخوان بہت وسیع ہے ۔ مومن ، کافر ، دوست ، دشمن ، نیکو کار ، بد کار اور صالح و فاجر سب اس سے فیضیاب ہوتے ہیں ۔ شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ نے سچ فرمایا ہے :
ادیمِ زمیں سُفرۂ عام او ست
چہ دشمن بریں خوانِ یغما چہ دوست
اللہ عز و جل اپنے بندوں پر ستر ماؤں سے زیادہ رحیم و شفیق ہے کہ بندہ رات دن اس کی نافرمانی کرتا ہے ، لیکن جرم و معصیت کی وجہ سے اس کا رزق بند نہیں فرماتا ہے ۔ انسان و حیوان سمیت روئے زمین پر رینگنے والی ساری مخلوق کا رزق اللہ رب العزت نے اپنے ذمۂ کرم پر لے رکھا ہے : و ما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا ۔
غرض کہ رزق ایک ایسی عام نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا دروازہ گنہگار بندے پر بھی بند نہیں فرماتا ۔ لیکن کثرتِ گناہ کے سبب بندہ بعض اوقات رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ سننِ ابنِ ماجہ کی مشہور حدیث ہے :
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ وَلَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ يُصِيبُهُ .
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بھلائی عمر کو زیادہ کر دیتی ہے اور تقدیر کو سوائے دعا کے کوئی چیز نہیں لوٹا نہیں سکتی اور آدمی اپنے اس گناہ کی وجہ سے جو وہ کرتا ہے ، رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔
(سننِ ابن ماجه ، کتاب الفتن ، ص : ۱۳۳۴ ، حدیث نمبر : ۴۰۲۲ ، مطبوعہ : دار احیاء الکتب العربیۃ ، بیروت )
اسی طرح گناہوں کے سبب دل میں وحشت پیدا ہوتی ہے ، دل گھبراتا ہے اور سکون کی دولت ختم ہو جاتی ہے ۔ لوگوں سے اچھے تعلقات بگڑ جاتے ہیں ۔ معاملات خراب ہو جاتے ہیں ۔ جائز مقاصد کے حصول میں قدم قدم پر رکاوٹیں پیش آتی ہیں ۔ چہرے کی رونق ختم ہو جاتی ہے ۔ گناہوں کے عادی شخص سے لوگ نفرت کرتے ہیں اور ان سے دور رہنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں ۔ الامان و الحفیظ ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیکیوں کی توفیق بخشے اور گناہوں سے دور و نفور رکھے ۔ آمین !!
8416960925
Mob :
0 تبصرے