اندھیرے سے اجالے کی طرف

اندھیرے سے اجالے کی طرف


از۔محمد قمرانجم قادری فیضی 
چیف ایڈیٹر مجلہ جام میر بلگرام شریف 



پروں کےزورمیں پنہاں ہےمنزلوں کا سراغ
اسی خیال نے زاہد اُڑان پر رکھا

دوران طالب علمی مرکزی علوم وفنون کا کوہ ہمالہ شیخ المشائخ حضور سیدنا سرکار شعیب الاولیاء لقد رضی المولی عنہ کے فیوض و بابرکت کا محور و منبع دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف ضلع سدھارتھ نگر میں جب 'فیض الرسول لائبریری' میں آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہوا ، سیرت و سوانح، دینیات، فقیہات، درسیات، منقولات و معقولات کی کتابیں /رسائل وجرائد/ اخبارات مطالعہ کرتا تو میرے اندر بھی لکھنے کے ذوق وشوق میں مزید ورافتگی پیدا ہوتی کہ مجھے بھی مضمون نگار/کالم نگار/تجزیہ نگار/مصنف/ مولف، بننا ہے ۔ اور میری بھی تحریریں ہندوستان کے ممتاز ومعیاری رسالوں/اخباروں کے صفحات کے زینت بنیں گی ۔

 تو اسی خیالات کے پیش نظر لائبریری میں موجود رسائل وجرائد، اخبارات میں شائع شدہ مضامین، مقالات، مراسلات خوب غورو وفکر، ادبی ذوق و شوق سے مطالعہ کرتا، اس میں موجود تحقیق و تنقیدات ،پر مشتمل مواد کو بار بار پڑھتا۔  تحریر کی اسلوب نگارش، اور اس میں موجود قیمتی نوادرات، ہیرے جواہرات کو چن چن کر ذہن کے خالی جگہوں میں رکھتا جاتا ۔
 2011ء/ فیض الرسول لائبریری میں ماہنامہ کنزالایمان، ماہنامہ جام نور، ماہنامہ سنی دنیا، ماہنامہ اشرفیہ، سہ ماہی پیام نظامی لہرولی، سہ ماہی امام احمد رضا میگزین وغیرہ جیسے اردوادب کے مایہ ماز اور معیاری رسائل و جرائد موجود ہوتے تھے ۔  اس وقت ماہنامہ فیض الرسول تعطل کا شکار ہوگیا تھا [مگر 2014ء/ کے بعد جب شہزادہ مفکر اسلام حضرت علامہ مولانا حافظ وقاری صاحبزادہ محمد آصف علوی ازہری مدظلہ العالی کی تعلیم ختم ہونے کے بعد ازہر سے واپسی ہوئی تو دارالعلوم اہلسنت فیض الرسول براؤں شریف کے نظم ونسق میں کافی بہتری آئی، اور اسی میں ماہنامہ فیض الرسول کی نشاۃ ثانیہ ہوئی]

اسی حوالے سے استاذ مکرم شہزادہ بدرملت حضرت علامہ مفتی رابع نورانی شاہ بدری استاذ دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف ضلع سدھارتھ نگر کے مضامین و مقالات بھی غور وفکر، تجسس، تلاش، جستجو کرکے پڑھتا۔۔۔۔
اس کی معنویت گہرائی، و گیرائی کو اپنے فہم و ادارک میں پیوست کرنے کی مکمل کوشش کرتا مگر کہتے ہیں کہ کسی بھی فن کا کوئی استاذ جب تک نہیں ہوتا اس میں خاطر خواہ کامیابی میسر نہیں ہوتی ۔۔۔۔اس شعر کے مصداق 

دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر 
آتا نہیں ہے فن کوئی استاذ کے بغیر 

پھر میں نے اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے استاذ گرامی وقار حضور مفتی رابع نورانی شاہ بدری مدظلہ العالی کو اپنا خصوصی مربی، مضمون نگاری کے لئے مشفق استاد تسلیم کرلیا ۔ ویسے تو جملہ اساتذہ فیض الرسول میرے مربی و مشفق و مہربان استاذ تھے مجھے ان کی شرف تلمذی پر فخر وناز ہے مگر ایک ایسا استاذ ہر شاگرد کا مخصوص ہوتا ہے جو محبوب نظر ہوتا ہے 
اور ویسے بھی آپ اپنی خدمت کرنے کے لئے کبھی کبھی بلایا کرتے تھے ۔جیسے گھنٹی ختم ہونے کے بعد آپ کے چائے نوشی کی اشیاء کو لے کر آپ کے درسگاہ میں جانا[ اشیاء چائے سے مراد آپ کے لئے ہوٹل سے چائے لانا، برانڈیڈ کمپنی کا نمکین، بسکٹ وغیرہ]پھر ما بعدہ ان اشیاء کو آپ کے قیام گاہ تک پہنچانا ، اگر غسل کی حاجت ہوتی تو غسل کروانا، پیر دبانا، کھانا کھلانا ،خدمتیں کرنا وغیرہ وغیرہ۔۔

تو اس طرح سے آپ کے خصوصی فیضان و کرم سے فیضیاب ہونے کا مستقل موقع ملا ۔
پھر ایک دن میں نے استاذ مکرم سے درخواست کی کہ آپ مجھے لکھنے/ مضمون نگاری کے اصول و ضوابط سے آگاہ فرمائیں نیز  طرح سے ایک قلم کار کو اپنی تحریر میں سلیس زبان، محاورات، لفظوں کے ذخیرہ، اور اس کی فنی، اسلوبی خوبیاں استعمال کرنی چاہیئے ۔
اس وقت آپ نے کہا کہ تم مضمون نگاری /قلمکاری کے نشیب و فراز سے واقف ہونا چاہتے ہوتو میں نے کہا جی؛  آپ نے کہا کہ پہلے ایک کاپی  اسی کام کے لئے مستقل خرید لو، اس کے بعد چھوٹے چھوٹے موضوع پر کم ازکم 
لفظوں پر مشتمل تحریر لکھو، جیسے کہ تم اپنے گھر جاتے ہو تو راستے میں کیا کیا چیزیں تمہیں نظر آتی ہیں۔
یا اٹوا بازار سے براؤں شریف آتے ہو تو راستے میں کیسے کیسے لوگ ملتے ہیں، کیا کیا تمہارے ساتھ لمحات گذرتے ہیں ان سب کو حیطہ تحریر میں لاؤ۔

اس کے بعد درس کے خارج اوقات کے بعد جو بھی وقت ملتا ان خالی اوقات میں مضمون نگاری کے اسلوب، اس کے نشیب و فراز سے واقفیت حاصل کرتا ۔اس حوالے سے کتابیں مطالعہ کرتا۔
جیسے جیسے اس کے خد وخال سے پردہ اٹھتا گیا ۔لکھنے میں مزید دلچسپی پیدا ہوتی گئی ۔
استاذ مکرم کو چھوٹی چھوٹی تحریریں لکھ کر روز لاتا آپ اس کو بغور دیکھتے /ملاحظہ فرماتے اور جہاں جہاں کمیاں/خامیاں/ بے ربط وضبط الفاظ ہوتے اس کی نشاندہی فرماتے اور پھر مزید اس پر گفتگو کرتے ہوئے بتاتے کہ اِس پیراگراف میں اِس لفظ کی جگہ فلاں لفظ سیٹ کرتے تو تحریر میں بے ربط وضبط پیدا نہ ہوتا ۔ اور تحریر میں مزید دلکشی وجاذبیت پیدا ہوتی، 
اس کے بعد پھر دوسرے موضوعات پر مشتمل مختصر تحریریں لکھ کر لاتا ۔ اس طرح سے مضمون نگاری کے اصول وضوابط سے مختصر معلومات حاصل ہوئی ۔

مزید استاذالکریم حضرت مفتی رابع نورانی شاہ بدری مدظلہ العالی ہی کی ایماء پر ہماری جماعت کے طلبہ میں مضمون نگاری/ یا قلم و قرطاس سے جو تھوڑا بہت لگاؤ پیدا ہوا تھا وہ آپ ہی کی مرہون منت ہے ۔

آپ ہی کے حکم پر ہماری جماعت[ ہماری جماعت کے خاص و ہونہار طلبہ مولانا ارشد حسین بڑھنی نیپال ، مولانا محمد اسرار رضا کٹھیلا، مولانا واحد رضا ومولانا شاہد رضا برادران،بستی، مولانا عرفان سعداللہ نگری، مولانا عرفان اللہ، مولانا عبدالقیوم، مولانا احمد حسین مہراج گنجوی، مولانا غلام محی الدین، مولانا محبوب، مولانا فیروزاحمد وغیرہ تھے]  کے طلبہ نے "جداریہ" پر کام کرنا شروع کیا ۔ دارالعلوم فیض الرسول کے طلباء کرام کا پندرہ روزہ جداریہ ہوتا تھا ۔جس کے ذریعے طلباء اپنی قلمی وادبی صلاحتیوں کو اجاگر کرتے یہ پندرہ روزہ جداریہ حضرت مفتی رابع نورانی شاہ بدری مدظلہ کے زیر نگرانی شائع کیا جاتاتھا ۔ کئی دارالعلوم و جامعات میں، اساتذہ کرام جداریہ پر کام کرواتے تھے 

مزے کی بات یہ تھی کہ میری کتابت یعنی َخوش خطی بھی کافی بہترین تھی تو اس لحاظ سے 'جداریہ'کی کتابت، تزین و آرائش، مضمون کی اصل کاپی سے اس پر نقل کرنا، وغیرہ وغیرہ جیسے اہم ترین کام ہمارے ہی سَر پر تھا ۔ اس کے بعد اس کو درسگاہ جدید کے دیوار پر چسپاں کیا جاتا تھا۔

اُس وقت میں سمجھ گیا تھا کہ 
عصر حاضر میں صحافت اشاعت دین کیلئے سب سے مؤثر ،اور مثبت ذریعہ ہے۔آج مسلم دنیا بالعموم اور ہمارے دینی مدارس بالخصوص اس فن میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ آئے روز ہمارے مذہب اور دین پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافت کے ہتھیار کو استعمال کرکے ان بے دینوں کا علمی تعاقب کیا جائے اور مسلمانوں کی صحیح اور درست علمی وفکری رہنمائی کی جائے۔

پھر میں نے اپنی کوششوں سے کئی ایک مضامین تحریر کئے بعدہ ازاں حضرت مفتی رابع نورانی شاہ بدری مدظلہ العالی کو دکھانے کے بعد کئی ایک ماہنامے/سہ ماہی، رسائل وجرائد نیز اخبارات میں اپنے ذاتی خرچ سے  بذریعہ ڈاک ارسال کیا ۔۔۔مگر کسی بھی ماہنامہ/سہ ماہی/ اخبارات میں شائع نہیں ہوا۔۔ مزید مجھے قرطاس وقلم سے لگاؤ اور بھی گہرا ہوتا چلا گیا ۔

مگر مجھے ناامیدی نہ ہوئی، بلکہ میں اور بھی عنوانات، پر مثلاََ رمضان المبارک/عیدالفطر/ عیدالاضحیٰ/ ماہ ربیع الاول/ حیات حضور غوث اعظم، حضور خواجہ غریب نواز/ حضور اعلی حضرت / حضور علامہ عبدالرحمن جامی،/ حضور شعیب الاولیاء / دیگر بزرگان دین کے احوال و آثار/ سیرت و سوانح پر لکھتا گیا ۔ لیکن کہیں سے بھی شائع نہیں ہوا ۔

میرے کمرے میں رہنے والے کچھ طلباء میرا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ یار تم جب دیکھو تب کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہو مگر کسی بھی مجلے یا رسالے/ اخبارات میں شائع نہیں ہوتا ہے تو اس طرح لکھنے سے کیا فائدہ؟ 

توڑا ہے ہم نے اس طرح صیاد کا غرور 
سینے پہ تیر کھا کے بھی جاری اڑان ہے

پھر اسی اثناء میں اپنا ایک مضمون لکھ کر گورکھپور روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شامل اشاعت کی غرض سے بس سے سفر کرتے ہوئے لے کر پہنچا ۔

[اُس وقت ظفر زیدی نام کے ایک صاحب ایڈیٹر تھے جن کی ادارت میں 'شیخ المشائخ خطیب البراہین حضرت صوفی نظام الدین قادری نوری برکاتی محدث بستوی علیہ الرحمہ اگیا شریف ضلع سنت کبیرنگر کی مختلف النوع،  تعمیری، فکری، درسی، فقہی، علمی ادبی،  خدمات پر  مشتمل عظیم ترین و تاریخ ساز 'محدث بستوی نمبر' روزنامہ راشٹریہ سہارا گورکھپور ایڈیشن میں شائع ہوا تھا] سے فون سے پہلے ہی رابطہ ہوگیا تھا، انہی کے حکم پر اپنا مضمون لے کر حاضر ہوا جو اردو ادب کے حوالے سے تھا ۔
گورکھپور بس اسٹینڈ پہنچ کر فون کیا یہ کوئی 2011ء/ کے اوائل کا واقعہ ہے 
انھوں نے مکمل پتہ بتایا پھر ٹیکسی کرکے بتائے گئے ایڈریس پر پہنچا، آپ سے ملاقات ہوئی۔ بہت ہی پرتپاک خیرمقدم کیا اور چائے وغیرہ پیش کی، بعدہ آپ نے وہ مضمون مانگا میں نے لفافہ سے نکال کر مضمون کو آپ کے ہاتھوں میں دے دیا آپ نے بغور پڑھا اور اس کے بعد کہا کہ یہ مضمون گورکھپور ایڈیشن میں تو شائع نہیں ہوپائے گا : مگر اس کا مختص کالم 'بزم سہارا' میں شائع ہوجائے گا  آپ نے حوصلہ افزائی فرمائی اور اس مضمون کو اپنے پاس محفوظ کرلیا ۔

مگر شاید میری تحریر اس معیار کی نہیں تھی جس معیار کی تحریریں اس دور میں 'بزم سہارا' کالم میں شامل اشاعت ہوتی تھیں۔ 
میری طرز تحریر اور نثر قابل قبول نہیں تھی۔وجہ یہ ہے کہ میں اپنی بات صاف صاف کہتا ہوں اور انشاء پردازی سے کام نہیں لیتا ہوں میری تحرریں رواں دواں اور واضح نہیں ہوتی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔آگلی قسط پڑھنے کے لئے انتظار کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے