اندھیرے سے اجالے کی طرف۔۔۔۔
چوتھی قسط
از۔محمد قمرانجم قادری فیضی
چیف ایڈیٹر مجلہ جام میر بلگرام شریف
روزنامہ راشٹریہ سہارا گورکھپور ایڈیشن میں مشہور و معروف کالم نگار و مزاح نگار جناب ڈاکٹر محمد قائم الاعظمی علیگ اعظمی کلنک برجمن گنج ضلع مہراج گنج کے اکثر و بیشتر طنز و مزاح، اور ادبی، دینی، تحریریں شائع ہوتی تھیں ۔ جسے میں بڑے ہی لگن، ذوق اور شوق سے پڑھتا اور مطالعہ کرتا تھا۔ اخبار میں آپ کی تصویر کے ساتھ مکمل پتہ اور موبائل نمبر بھی درج تھا ۔
ایک دن میں نے فون کیا اور آپ سے مضامین کیسے لکھتے ہیں؟ کیا کیا طریقہ کار ہونا چاہئے، آپ کی تحریریں بہت صاف وشفاف اور دلکش پیرائے میں ہوتی ہیں ۔
اس حوالے سے بات چیت شروع ہوئی اور پھر ہوتی گئی، آپ نے مجھے صحافت میں کافی تعاون کیا، مضمون نگاری کے حوالے سے، آپ سے گھنٹوں موبائل پر باتیں ہوتی تھیں۔
پھر ایک دن آپ نے اپنے مضامین کے بارے میں مجھ سے کہا کہ میں جملہ مضامین کو یکجا کرکے کتابی شکل میں لانا چاہتا ہوں۔ تو میں نے کہا ٹھیک ہے ۔ آپ نے وہ سارے رسائل و جرائد، اخبارات جن میں آپ کے دینی، علمی، اصلاحی، اور طنزو مزاحیہ مضامین شائع ہوئے تھے ۔ سب کو اسکین کروا کے میرے حوالے کردیا۔
میں نے اس کو کمپوزنگ کرنے والے صاحب کو جملہ مضامین ایک فہرست مرتب کر کے دے دیا ۔انھوں نے کمپوزنگ کرنا شروع کردیا۔ تقریباً دو سال کی کثیر مدت میں 'نقوش طنزو مزاح ' نامی کتاب معرض وجود میں آئی ۔ اِس طرح سے میں مضمون نگار سے 'مرتب' بن گیا ۔
واضح ہو کہ ڈاکٹر قائم الاعظمی صاحب مورخ اسلام صاحب تصانیف کثیرہ علامہ مفتی ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی شیخ الحدیث شمس العلوم گھوسی کے برادر اصغر ہیں۔
آپ کا خاندان علمی، ادبی خانواده ہے ۔
اس بات کا ٹھوس اور مضبوط ثبوت آپ کی تحریریں ہیں جو ' نقوش طنز و مزاح ' نامی کتاب میں شائع ہو چکی ہیں ۔ جس کو میں نے ہی ترتیب دیا ہے ۔
مذکورہ کتاب 224/ صفحات پر مشتمل ہے،ناشر بیت الحکمت محلہ کریم الدین پور، پوسٹ گھوسی ضلع مئو یوپی ہے، اور تقسیم کار خلیل اللہ اکیڈمی جمالڈیہہ چافہ پوسٹ بڑھنی بازار ضلع سدھارتھ نگر ہے، نیز اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اول۔مزاحیہ مضامین، دوم علمی وادبی مضامین، سوم-قصہ وکہانی اور اسفار، ابتدائیہ کلمات میں پیش لفظ کے عنوان سے ڈاکٹر محمدقائم الاعظمی علیگ نے اپنی تخلیقاتی کاوشوں، کوششوں، اور اس کی غرض وغایت کا برملا اظہار کیا ہے، جب کہ تاثرات، برادر معظم مفکر ملت صاحب تصانیف کثیرہ حضرت علامہ ڈاکٹر محمدعاصم اعظمی مدظلہ العالی شیخ الحدیث، جامعہ شمش العلوم گھوسی مئو،نے پیش کیا،
راقم الحروف نے، تصنیف و مصنف ایک جائزہ کے عنوان سے لکھا ہے، جب کہ سراغ منزل کے عنوان سے عالمہ فاضلہ محترمہ صاحبزادی رضوانہ خان رضوی صاحبہ اترولہ ضلع بلرامپور نے بہترین خامہ فرسائی کر کے مصنف اور ترتیب کردہ کے احوال و کوائف کو بہترین اور دلکش انداز میں قارئین کے سامنے پیش
کیا ہے ۔
درجنوں ادبی و مزاحیہ مضامین جیسے، قوم کے قائدین اور ان کی اہم زمہ داریاں، اسلام اور دنیا کے پیچیدہ مسائل کاحل، مشرقی اترپردیش کے قصبہ گھوسی میں فروغ اردو کا کردار، اسلام کا نظریہ حفظان صحت ایک صحتمند قوم کا ظامن ،مسلمانوں کی سیاسی پسماندگی کاپس منظر، موبائل فون سے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا، ہندوستان میں سلسلوں کا تصور، ایسے ہی تین درجن سے زائد مضامین کا مجموعہ، نقوش طنزومزاح، میں شامل کر کے کتابی شکل دی ہے۔
اسی کتاب کا ایک مضمون ،داستان غم خوردگان شوہراں، سے قارئین کو گُدگُدانے کے لئے مختصر اقتباس نقل کرتے ہیں۔۔
بہت سی عالمی جنگیں لڑی گئیں دو ملکوں کے مابین اور اندرون ملک انتشار وخلفشار کا ماحول ہوتا رہا ہے، قبائلی و صوبائی جھڑپیں ہونے کے بعد صلح وآشتی میں تبدیل ہوگئیں، لیکن مسئلہ کشمیر کی طرح میاں بیوی کے درمیان بڑے سے بڑے چھوٹے سے چھوٹے یا معموملی پیچیدہ مسئلوں کا کوئی حل نہیں نکل سکا، یہی وجہ ہے کہ صدر مملکت، وزرائے اعظم و وزراء اعلی، وزرائے خارجہ، جج ووکیل، ڈپٹی کلیکٹر، ڈاکٹر، وفلاسفر، یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ، اپنے اپنے وقت کے تیس مار خان، یا رستم زماں ہوں، مگر جب اپنے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو کچھ دیر کے لئے سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آیا اس وقت بیوی کا مزج معتدل ہے یا غیر معتدل، کیونکہ کسی چیز کے مزاج میں موسم کے متغیر و متبدل ہونے سے تبدیلی آسکتی ہےلیکن بیوی کے مزاج پر موسم کا کوئی بھی اثر نہیں پڑتا، دیر رات گھر پہنچنے پر اکثر شوہروں کو تو کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا، پھر باورچی خانے میں جاکر خود سے پکا کر اپنی بھوک و پیاس مٹانی پڑتی ہے۔۔
نئے پڑھنے والوں کے لیے یہ کتاب یقیناً دل لگی اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ معلومات کا اہم ذریعہ ثابت ہو گی.شروع کے100/صفحات کرداروں کے تانے بانے اور پہچاننے میں گزر جاتے ہیں۔اس کے بعد کے صفحات میں کرداروں کے مکالمات اور مزاج سے ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس کتاب میں ایسے دلکش اور دلچسپ مضامین شامل کئے گئے ہیں جنھیں پڑھ کر آپ اپنے آپ کو ہنسنے سے روک نہیں سکتے ہیں۔
جیسے ،مان یا مت مان میں تیرا مہمان•ایک جان مشاعرہ کےنام •علی گڑھ کے مچھر•ہندوستان میں سلسلوں کا تصور• تذکرہءِ رشوت خوران ہندوستاں• چندساعت درمیانِ مچھراں•داستانِ غم خوردگان شوہراں•تذکرہءِ روزہ خوران ماہ رمضاں• سسرال ایک حسین تصوراور ایک تلخ تجربہ• اور اس کتاب کی جان،حضرتوا•
قصہّ تیس مار خان• پانچ ٹانگ کا گدھا•جھاڑو اور جوتے کی جدید افادیت اور ان کا سائنٹفک طریقہءِ استعمال•قضیہ ضَرَبَ زیدُْ عمراً کا• وغیرہ، اور ایسے ہی بہترین اور طنزومزاح پر مبنی درجنوں مضامین کا بہترین مجموعہ"نقوش طنزومزاح " جہان ادب میں نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے جنہیں آپ خلوت میں پڑھیں گے تو تبسم زیرِلب محفل میں پڑھیں گے تو بزم طرب اور قہقہوں کا سماں بندھ جائے گا۔
ڈاکٹر محمدقائم الاعظمی علیگ کو وہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ قاری کو کتاب کے ساتھ جڑنے ہر مجبور کر دیتے ہیں۔"اردو طنزو مزاح کی تاریخ میں ڈاکٹر محمد قائم الاعظی علیگ صاحب کی حیثیت درخشاں ستارے کی ہے،خوش طبعی، شوخی اور بے تکلفی ڈاکٹر محمدقائم الاعظمی علیگ کی مزاح نگاری کی اہم خوبیاں ہیں۔ طنز کی کاٹ ان کے مزاح میں شامل ہوتی ہے۔جھاڑو اور جوتے کی جدید افادیت اور ان کا سائنٹفک طریقۂ استعمال، کی نفسیات سے بھی انھوں نے بھرپور واقفیت کا ثبوت دیا ہے۔ انھوں نے محاورے اور اشعار میں چابک دستی سے کام لیا ہے۔اس مضمون میں ہندوستانی تہذیب کی رواداری اور دل شکنی سے گریز کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔جب تک لوگ زندہ ہیں یہ مضمون بھی زندہ رہے گا۔
0 تبصرے