ملک کو آزاد کس نے کرایا؟

ملک کو آزاد کس نے کرایا؟

از: مولانا ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی پورنوی


سیاست دانوں کا کہنا ہے۔ ملک کی آزادی ہماری بے لاگ کوششوں کا نتیجہ ہے، ہم نے تحریر چلائی، تجویز پیش کی، ریزولوشن پاس کرایا، بڑے بڑے اجلاس بلائے، تقریریں کیں، آواز اٹھائی، احتجاج کیا، ممبئی کی زمین گواہ ہے، یہیں سے ہندوستان چھوڑو تحریک کا پرزور نعرہ بلند کیا، ستیہ گرہ کیا، آندولن چلایا، جیلیں بھریں، گرفتاریاں دیں, گولیاں کھائیں، جسموں کو چھلنی کیا، عوام کو بیدار کیا، بڈّھی برطانیہ کے اہلکاروں کی نیندیں حرام کیں، خفیہ دستے تیار کیے، اعلانیہ مارچ کیا، راتوں رات اسکیم بنائی، دنوں دن کارندوں تک پہنچایا، خاک و خون میں ہم تڑپے، پانی کے قطروں کو ہم ترسے, لہو کی ندیاں ہم نے عبور کیں، کانٹوں کی راہ ہم چلے، شعلوں کی برسات ہم پر ہوئی، آج جو یہ ترنگا جھنڈا بھارت کے ماتھے پر، لال قلعہ کی فصیل پر لہرا رہا ہے یہ ہماری دین ہے، ملک آزاد ہے، بہار کا زمانہ ہے، ہماری کاوش ہے، یہ چمن ہمارا سینچا ہوا ہے, یہ گلشن ہمارا آباد کیا ہوا ہے، یہ نگارخانہ ہمارا سجایا ہوا ہے۔
علمائے دین کا فرمانا ہے ملک ہمارا تھا حکمراں ہم تھے ہمارے آبا و اجداد نے ہزار سال حکومت کی تھی ہر طرح سے سجایا تھا سو جتن سے سوارا تھا باغ باں ہم تھے ہر پھول پر ہمارا حق تھا باپ کا گھر تھا بیٹوں کا حق تھا دادا کی میراث تھی پوتوں کی وراثت تھی انگریز نے غصب کیا، غضب کیا ہڑپ لیا، ظلم ڈھایا، قہر توڑا، حق سے منہ موڑا، ناحق قیامت ڈھائی، گھر والوں کو زبردستی بے دخل کیا، خود مالک مکان بن بیٹھا، چونکہ گھر ہمارا تھا، ہماری وراثت تھی، حکومت تھی، دل ہمارا جلتا تھا، دماغ ہمارا کھولتا تھا، خون ہمارا ابلتا تھا، ہے۔ کون ہے جو اپنے غاصب کو ہٹانے، ظالم کو مٹانے دشمن کو بھگانے کی جد و جہد نہ کرے، کیوں کہ وہ ہماری نظر میں کانٹا تھا، ہم اس کی نگاہ کے کانٹے تھے، وہ ہمیں خار لگتا تھا، ہم اس کو خار لگتے تھے، اس کو یہ بھی معلوم تھا، آزادی کی آواز ہم ہی بلند کریں گے، تحریک حریت ہم ہی سے شروع ہوگی، اس کو یہ خدشہ تھا، کھٹکا تھا، دھڑکا لگا رہتا تھا، جو اپنی جگہ سچ بھی تھا، اس لیے اس نے پہلے ہمیں گھر سے بے گھر کیا، بے در کیا، زمین داریاں چھین لیں، جاگیریں ضبط کیں، امارتیں ٹوٹیں، ریاستیں توڑیں، تخت و تاج پر قبضہ کیا، مسجدوں، مدرسوں، خانقاہوں کو ویران کیا، سولیوں پر چڑھایا، صف بہ صف، قطار در قطار علماء کو گولیوں سے بھون دیا، کالا پانی کی سزائیں دیں، کون سا ظلم تھا جو اس نے نہیں ڈھایا، کون سا حربہ تھا جو اس نے نہیں آزمایا۔
در اصل جنگِ آزادی کے بنیاد گزار ہم ہیں۔ اسی بنیاد پر اوروں نے بھی کام شروع کیا تو ہم ہر موڑ پر پیش پیش رہے، شانہ بہ شانہ رہے، لوگوں نے غداری ضرور کی ہماری وفاداری پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا جب جہاں ضرورت پڑی جان و مال کی قربانی دی اول و آخر ہم ہی آزادی کے ہیرو ہیں اخبار نویسوں کا ماننا ہے ہم نے ملک کی آزادی میں بڑا اہم کردار ادا کیا خبریں بنائیں خبریں لکھیں خبریں چھاپیں ملک کے طول و عرض میں پھیلائیں اہل نظر کو باخبر کیا عوام کو بیدار کیا ہم نہ ہوتے تو لیڈروں کے لیکچرز مقرروں کی تقریریں، محرکوں کی تحریکیں، مجوزوں کی تجویزیں، ادیبوں کے بیانات، خطیبوں کے خیالات، نظم نگاروں کی نظمیں، مفکروں کے افکار، مدبروں کی تدبیریں کیونکر چھپتیں کیونکر بنتیں ملک کے کونے کونے تک کیونکر پہونچتیں لہذا جنگ آزادی میں ہمارا رول ناقابل فراموش ہے۔
شاعروں، نظم نگاروں کا کہنا ہے ہم نے شاعری کی مشاعرے کیے نظمیں لکھیں ہندوستانیوں کے جذبوں کو جگایا خفتہ قوم کو بیدار کیا جوانوں کو جھنجھوڑا مجاہدوں کو ابھارا لیڈروں کو ڈھارس بندھائی خطیبوں کو جوش دلایا عوام کو حوصلہ دیا ہماری ہی نظم نگاری تھی نظم خوانی تھی جس نے بچوں تک کے خون کو گرما دیا عورتوں تک کو میدانِ جنگ میں لا اتارا ہم حرم میں گئے سجدے کیے دعائیں کیں دیر میں پہونچے آرتی اتاری سنکھ پھونکا گھنٹی بجائی پوجا کی گردواروں میں گئے ہری ہری ست کال کے نعرے لگائے غرضیکہ ہم نے ہماری شاعری نے ہمارے مشاعروں نے ہمارے نظم نگاروں نے ملک کے ہر حصے میں تحریک آزادی کی روح پھونک دی آگ لگا دی شعلے بھڑکا دیئے سب کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہم نہ ہوتے تو؟ اس لئے ملک کی آزادی میں ہم سب سے بڑے حصے دار ہیں۔
ایسی ایسی ٹولیاں ابھی اور بھی بہت ہیں جو اپنی اپنی ڈفلیاں بجاتی ہیں اور جیالے مردانِ کار ہیں جو پرچمِ حریت اپنے مضبوط ہاتھوں سے تھامے کھڑے ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں آزادی کی تحریک میں ہر گروہ کا حصہ ہے لیکن علمائے دین کی قربانیاں سب سے زیادہ ہیں اس لیے کہ کوئی سیاست داں کوئی لیڈر کوئی صحافی کوئی شاعر کوئی نظم نگار کوئی مشاعرہ باز نہ اتنی گولیاں کھائیں جو علماء نے کھائیں نہ اتنے سولیوں پہ چڑھے جو علماء کو دی گئیں تختۂ دار پہ چڑھائے گئے نہ کسی کو اتنی ہتھکڑیاں، بیڑیاں پہنائی گئیں جو علماء کو پہنائی گئیں نہ کوئی کالا پانی گیا نہ کسی نے ہجرت کی نہ کوئی فلسطین میں دفن ہوا یہ علماء ہی تھے جو اپنا گھر پھونک پھونک کر جنگِ آزادی کا تماشہ دیکھتے رہے مرغِ بسمل کی طرح تڑپتے رہے ترستے رہے بالآخر یہ ملک آزاد ہوا آزاد ملک میں سانس لینے والوں کو چاہیے کہ وہ ان کو ضرور یاد کریں خراج عقیدت پیش کریں ان کی قبروں پر دیئے جائیں فاتحہ پڑھیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے