جنگ آزادی کے گمنام کردار اور قومی تحریک

 جنگ آزادی کے گمنام کردار اور قومی تحریک 


از۔ محمد قمرانجم قادری فیضی 

 

                               


اٹھارہویں صدی کے وسط میں سلطنت مغلیہ کا آفتاب مائل بہ غروب ہورہا تھا اور انگریزی اقتدار کی گھٹائیں دن بدن گاڑھی ہورہی تھیں ، انگریز جب ہندوستان پہنچے تھے تو تاجر کی حیثیت سے پہنچے تھے اور عام لوگوں نے انھیں ایک معمولی تاجر کے سوا اور کچھ نہیں سمجھا تھا، لیکن ان کی نیت صاف نہیں تھی، انھوں نے اپنوں کی کمزوری اور آپسی نا اتفاقی سے فائدہ اٹھا کر اپنی شاطرانہ اور عیارانہ چالوں کے ذریعہ یہاں کے سیاہ و سفید کے مالک ہوگئے اور ہندوستانی قوم کو غلامی کی غیر مرئی زنجیروں میں قید کرنے میں کامیاب و کامران ہوگئے، یہاں کی دولت و ثروت کو بے دریغ لوٹنے لگے، یہاں کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے اور یہاں کی تہذیب سے کھلواڑ کرنے لگے اور اس کا سلسلہ مزید بڑھتا ہی گیا، پانی جب سر سے اوپر ہوگیا، تو ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادی وطن کا جذبہ پیدا ہوا، اور یہ بات بھی ناقابل تردید ہے کہ 

ہندوستان کی آزادی کی کہانی ، تاریخ وطن سے محبت کرنے والوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔ اسلحے، بارود کے لحاظ سے کم تناسب کے باوجود جدوجہد آزادی اور جنگ آزادی میں سبھی لوگوں نے  نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ اپنے وطن عزیز کی آزادی کو یقینی بنانے میں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے۔ اور جنگ آزادی میں ہندو ومسلم سبھوں نے مل جل کر قربانیاں دیں ہیں، تب جاکر یہ ملک آزاد ہوا ہے، 


ہندوستان پر انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ اور پھر ان کے خلاف جدوجہد آزادی کے آغاز کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پہلی جدوجہد آزادی حیدر علی اور ان کے فرزند ٹیپو سلطان نے 1780/ ء میں شروع کی اور 1790 ء میں پہلی مرتبہ فوجی استعمال کے لئے حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے میسوری ساختہ راکٹس کو بڑی کامیابی سے نصب کیا۔ حیدر علی اور ان کے بہادر فرزند نے 1780 ء/ اور 1790ء/ میں برطانوی حملہ آوروں کے خلاف راکٹیں اور توپ کا مؤثر طور یہیں سے استعمال کیاتھا ۔

ہندوستان میں ہر کوئی جانتا ہے کہ رانی جھانسی نے اپنے متبنیٰ فرزند کے لئے سلطنت و حکمرانی کے حصول کی خاطر لڑائی لڑی لیکن ہم میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ بیگم حضرت محل پہلی جنگ آزادی کی گمنام ہیروئن تھیں جنھوں نے برطانوی چیف کمشنر سر ہنری لارنس کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا تھا اور 30 جون 1857ء/کو "چن پاٹ "کے مقام پر فیصلہ کن جنگ میں انگریزی فوج کو شرمناک شکست سے دوچار کیا تھا۔

مولوی احمد اللہ شاہ  جنھوں نے ملک میں پہلی جنگ آزادی منظم کی تھی۔ اور جنگ آزادی میں بے شمار مجاہدین آزادی نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا جن میں  ہندو مسلم مجاہدین سبھی شامل تھے۔ برطانوی راج کے خلاف سازش کے الزام میں اشفاق اللہ خاں کو پھانسی دی گئی۔ اس طرح وہ انگریزی حکومت کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں پھانسی پر چڑھ جانے والے پہلے مجاہد آزادی بن گئے۔ جس وقت اشفاق اللہ خاں کو پھانسی دی گئی اُس وقت ان کی عمر صرف 27 سال تھی۔

مولانا ابوالکلام آزاد ایک ممتاز عالم دین تھے اور ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران انڈین نیشنل کانگریس کے ایک سینئر مسلم رہنما تھے۔ شراب کی دوکانات کے خلاف مہاتما گاندھی نے دھرنے اور گھیراؤ مہم چلائی اس میں صرف 19 لوگوں نے حصہ لیا، ان میں بھی ہندو مسلم  سبھی شامل تھے۔


آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بڑی مضبوط اور شدت کے ساتھ لڑائی لڑی۔ ان کی وہی لڑائی 1857ء/ کی غدر کا باعث بنی۔ سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے رنگون، برما (میانمار) میں بہادر شاہ ظفر کی مزار پر حاضری کے بعد کتاب تاثرات میں لکھا تھا ’’اگرچہ آپ (بہادر شاہ ظفر) کو ہندوستان میں زمین نہ مل سکی، آپ کو یہاں (برما) میں سپرد خاک ہونے کے لئے زمین مل گئی۔ آپ رنگون (ینگون) میں مدفن ہیں لیکن آپ کا نام زندہ ہے۔ میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کی نشانی و علامت بہادر شاہ ظفر کو خراج عقیدت و گلہائے عقیدت پیش کرتا ہوں، وہی ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا نکتۂ آغاز تھا۔

 ایم اے ایم امیر حمزہ نے انڈین نیشنل آرمی (آزاد ہند فوج) (INA) کے لئے لاکھوں روپئے بطور عطیہ پیش کیا۔ وہ انڈین نیشنل آرمی کے آزاد لائبریری ریڈنگ پروپگنڈہ کے سربراہ تھے۔ اب اس مجاہد آزادی کا خاندان انتہائی غربت و کسم پرسی کی حالت میں زندگی گزار رہا ہے، 

ہندوستانی، میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی کو بھی نہیں جانتے ہوں گے؟۔ یہ وہی شخص ہے جس نے اپنی ساری دولت ایک کروڑ روپئے انڈین نیشنل آرمی کو بطور عطیہ پیش کردی تھی۔ اس دور میں ایک کروڑ روپئے کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔ میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی نے اپنی ساری دولت سارے اثاثے نیتاجی سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی کو عطیہ کردی تھی ۔ شاہنواز خاں ایک سپاہی، ایک سیاستداں اور انڈین نیشنل آرمی میں چیف آفیسر اور کمانڈر تھے۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی قائم کردہ آزاد ہند کی جلاوطن کابینہ کے 19 ارکان میں 5 مسلمان تھے۔ بی اماں نامی ایک مسلم خاتون نے جنگ آزادی کے لئے 30 لاکھ روپئے سے زائد رقم کا گرانقدر عطیہ پیش کیاتھا۔


ٹاملناڈو میں اسمٰعیل صاحب اور مرودانایاگم نے مسلسل 7 برسوں تک انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی، ان دونوں نے انگریزوں میں خوف و دہشت پیدا کر رکھی تھی۔ہم تمام وی او سی (کیالوٹیا ٹامل زبان) کو جانتے ہیں وہ پہلے ملاح ہیں جنھوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو فقیر محمد راٹھور کے بارے میں جانتے ہیں جنھوں نے اس جہاز کا عطیہ دیا تھا۔ جب وی او سی کی گرفتاری عمل میں آئی محمد یٰسین کو برطانوی پولیس نے وی او سی کی رہائی کے لئے احتجاج کرنے پر گولی مار دی۔

تریپورہ کلارن (کوڈی کٹی کمارن) نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں حصہ لیا۔ کمارن کے ساتھ دیگر 7 لاگوں کو بھی گرفتار کیا گیا وہ تمام کے تمام مسلمان تھے جن کے نام یہ ہیں۔ عبداللطیف، اکبر علی، محی الدین خان، عبدالرحیم، باوو صاحب، عبداللطیف اور شیخ بابا صاحب وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں،


ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ ●

 انگریزوں نے اس جنگ کو غدر کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کئے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ ایسٹ ایڈیا کمپنی نے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جوکارتوس فوجیوں کو دیئے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔


جنگ آزادی  کا آغاز 1857ء/ میں بنگال میں دمدم اور بارک پور کے مقامات پر ہوا جہاں دیسی سپاہیوں نے ان کارتوسوں کے استعمال سے انکار کر دیا تھا جن میں ان کے خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی لگی ہوئی تھی۔ انگریزی حکومت نے ان سپاہیوں کو غیر مسلح کرکے فوجی ملازمت سے برخواست کر دیا۔ لکھنؤ میں بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ برخاست شدہ سپاہی ملک میں پھیل گئے۔ اور فوجوں کو انگریزوں کے خلاف ابھارنے لگے۔


9 مئی 1857/ء کو میرٹھ میں ایک رجمنٹ کے سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا دی گئی۔ جس طریقے سے یہ حکم سنایا گیا وہ بھی تہذیب سے گرا ہوا تھا۔ دیسی سپاہیوں نے انگریز افسروں کو ہلاک کرکے ان قیدیوں کو آزاد کرا لیا اور میرٹھ سے دہلی کی طرف بڑھنے لگے ۔میرٹھ کے سپاہیوں کی دہلی میں آمد سے دہلی کی فوجیں بھی بگڑ گئیں۔ اور دہلی کے مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اعلان کے بعد بغاوت کی آگ دور دور تک پھیل گئی۔


بہادر شاہ ظفر رنگون میں ●

جنرل نکلسن نے انگریز فوجوں کی مدد سے تقریباً چار مہینے تک دہلی کا محاصرہ کیے رکھا۔ 14 ستمبر کو کشمیری دروازہ توڑ دیا گیا۔ جنرل نکلسن اس لڑائی میں مارا گیا مگر انگریز اور سکھ فوجوں نے دہلی پر قبضہ کر کے بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا۔ ان کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو گولی سے اڑا دیا گیا۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو جانے سے ہر جگہ جنگ آزادی کی رفتار مدہم پڑھ گئی۔ مارچ1858ء/ میں لکھنؤ پر دوبارہ انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ دہلی ،لکھنؤ ،کانپور، جھانسی کے علاوہ چند اور مقامات بھی انگریزوں کے تصرف میں آ گئے تھے، 


جنگ آزادی کا نعرہ "انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دو" تھا، اس لئے اس میں تمام ایسے عناصر شامل ہو گئے جن کو انگریز حکومت سے نقصان پہنچا تھا۔ متضاد عناصر ایک مشترکہ دشمن کے خلاف یکجا تو ہوئے تھے لیکن وطنیت اور قومیت کے تصورات سے ناآشنا تھے۔


(ہندوستان کی آزادی کے لئے انقلابی تحریک) 


انقلابی تحریک برائے آزادی ●

ہندوستان زیر زمین انقلابی جماعت کے اقدامات پر مشتمل ایک حصہ ہے۔ موہن داس گاندھی کی سربراہی میں عام طور پر پر امن سول نافرمانی کی تحریک کے برخلاف حکمران برطانویوں کے خلاف مسلح انقلاب پر یقین رکھنے والے گروہ اس زمرے میں آتے ہیں۔ انقلابی گروہ بنیادی طور پر بنگال ، مہاراشٹر ، بہار ، متحدہ صوبوں اور پنجاب میں مرکوز تھے۔ مزید گروہ پورے ہندوستان میں بکھرے ہوئے تھے۔


آندھرا پردیش ●

ایالاواڈا نرسمہا ریڈی (وفات: 22 فروری 1847ء) ایک سابق ہندوستانی تلگو پولیگر کے بیٹے تھے، جو 1846ء/ میں بغاوت کا مرکز تھا ، جہاں آندھرا پردیش رائلسیما ریجن میں کرنال ضلع میں 5000/ کسان برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی (ای سی) کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ وہ انیسویں صدی کے پہلے نصف میں انگریزوں کے ذریعہ متعارف کرائے گئے روایتی زرعی نظام میں تبدیلیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ وہ تبدیلیاں ، جن میں ریوٹواری سسٹم کا تعارف اور ریونیو کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی دیگر کوششیں شامل رہی ہیں ، ان کی فصلوں کو ختم کرکے اور انہیں غریب بنا کر نچلے درجے کے کاشتکاروں کو متاثر کیا۔


اکا دکا واقعات کے علاوہ ، 20 ویں صدی کے آغاز سے پہلے ہی برطانوی حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ 1905/ کے بنگال کی تقسیم کے دوران میں انقلابی فلسفوں اور تحریک نے اپنی موجودگی کو محسوس کروایا ۔ بظاہر ، انقلابیوں کو منظم کرنے کے ابتدائی اقدامات ارویبندو گھوش ، اس کے بھائی بارین گھوش ، بھوپندر ناتھ دتہ ، لال بال پال اور سبودھ چندر ملک نے اپريل 1906/ میں جب جگینتر پارٹی کی تشکیل کے وقت اٹھائے تھے۔ جوگانتر کو انوشیل سمیتی کے داخلی دائرہ کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا ، جو پہلے ہی بنیادی طور پر فٹنس کلب کے طور پر بنگال میں موجود تھا۔


بنگال انوشیلان سمیتی ●

پرمتھاناتھ میترا کی قائم کی گئی یہ تنظیم ایک بہت منظم انقلابی انجمنوں میں سے ایک بن گئی  تھی ، خاص طور پر مشرقی بنگال میں جہاں ڈھاکہ انوشیلا سمیتی کی متعدد شاخیں تھیں اور انہوں نے بڑی سرگرمیاں انجام دیں تھیں، جوگینتر شروع میں ہیگناہ کے پالماچ کی طرح کولکاتہ انوشیلا سمیتی کے اندرونی حلقے کے ذریعہ تشکیل دیا گیا تھا۔ 1920/کی دہائی میں ، کولکاتا دھڑے نے عدم تعاون تحریک میں گاندھی کی حمایت کی اور بہت سے رہنماؤں نے کانگریس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ انوشیلان سماتی کی پانچ سو سے زیادہ شاخیں تھیں۔ امریکا اور کینیڈا میں مقیم ہندوستانیوں نے غدر پارٹی قائم کی تھی


بارین گھوش مرکزی رہنما تھے۔ انہوں نے باگہ جتن سمیت 21 انقلابیوں کے ساتھ مل کر اسلحہ اور دھماکا خیز مواد جمع کرنا شروع کیا اور بم تیار کیا۔ جوگینترکا ہیڈ کوارٹر / A 93 بووبازار سٹریٹ، کولکتہ میں واقع تھا 


اس گروپ کے کچھ سینئر ممبروں کو سیاسی اور فوجی تربیت کے لئے بیرون ملک بھیجا گیا تھا۔ ان میں سے ایک ، ہیمچندر کانونگو نے پیرس میں اپنی تربیت حاصل کی۔ کلکتہ واپس آنے کے بعد اس نے کلکتہ کے نواحی علاقے مانیکتلا میں ایک باغ گھر میں مشترکہ دینی اسکول اور بم فیکٹری قائم کی۔ تاہم ، خودیرام بوس اور پرافولا چکی (30 اپریل 1908) کے مظفر پور کے ضلعی جج کنگزفورڈ کوقتل کرنے کی کوشش کے بعد پولیس تفتیش کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں بہت سارے انقلابی گرفتار ہوئے۔


1910/ میں جتیندر ناتھ مکھرجی (باگہ جتن)

باگھا جتن جوگنتر کے اعلیٰ قائدین میں شامل تھے۔ اسے ہاوڑہ سب پور سازش کیس کے سلسلے میں متعدد دیگر رہنماؤں سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا ،اس پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے حکمران کے خلاف فوج کی مختلف رجمنٹ کو بھڑکایا تھا۔ 


جوگانتر نے ، دوسرے انقلابی گروہوں کے ساتھ اور بیرون ملک ہندوستانیوں کی مدد سے ، پہلی جنگ عظیم کے دوران میں برطانوی حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کا زیادہ تر انحصار ہندوستانی ساحل پر جرمن اسلحہ اور گولہ بارود کی خفیہ لینڈنگ پر تھا۔ اس منصوبے کو ہندو جرمن سازش کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ تاہم ، منصوبہ بند بغاوت عمل میں نہیں آئی۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد یوگانتر نے عدم تعاون تحریک میں گاندھی کی حمایت کی اور ان کے بہت سے قائدین کانگریس میں تھے ۔ پھر بھی ، اس گروہ نے اپنی انقلابی سرگرمیاں جاری رکھیں ، ایک قابل ذکر واقعہ چٹاگانگ کا اسلحہ خانے کا تھا ۔


اترپردیش●

ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن ترميم


بھگت سنگھ ، سکھدیو تھاپر اور شیوارام راج گرو

ہندوستان ریپبلیکن ایسوسی ایشن (ایچ آر اے) کا قیام اکتوبر 1924 میں اتر پردیش کے کانپور میں رامپ رساد بسمل ، جوگیش چیٹرجی ، چندرشیکھر آزاد ، یوگیندر شکلا اور سچندر ناتھ سانیال جیسے انقلابیوں نے کیا تھا ۔ پارٹی کا مقصد نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے لئے مسلح انقلاب کا اہتمام کرنا اور ایک وفاقی جمہوریہ ریاستہائے متحدہ انڈیا کا قیام تھا۔ کاکوری ٹرین ڈکیتی اس گروہ کے ذریعہ بغاوت کا ایک قابل ذکر فعل تھا۔ کاکوری مقدمہ اشفاق اللہ خان ، رام پرساد بسمل ، روشن سنگھ ، راجندر لہڑی کو پھانسی دینے کا باعث بنا۔ کاکوری کیس اس گروپ کے لئے ایک بڑا دھچکا تھا۔ تاہم ، گروپ کو جلد ہی چندر شیکھر آزاد کی سربراہی میں اور بھگت سنگھ ، بھاگتی چرن ووہرا اور سکھ دیو جیسے ممبروں کے ساتھ 9 اور 10 ستمبر 1928/ کو دوبارہ منظم کیا گیا تھا اور اس گروپ کو اب ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن (ایچ ایس آر اے) کا نام دیا گیا تھا۔


لاہور میں 17 دسمبر 1928/ کو بھگت سنگھ ، چندر شیکھر آزاد اور راج گورو نے لالہ لاجپت رائے پر مہلک لاٹھی چارج میں ملوث ایک پولیس اہلکار سینڈرز کا قتل کر دیا۔ بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت نے سنٹرل قانون ساز اسمبلی کے اندر بم پھینکا۔ اس کے بعد اسمبلی بم کیس کی سماعت ہوئی۔ بھگت سنگھ ، سکھدیو تھاپر اور شیو رام راج گرو کو 23 مارچ 1931/کو پھانسی دے دی گئی۔،،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے