امام احمد رضا اور ردِّ صلح کلیت

 امام احمد رضا اور ردِّ صلح کلیت



از: محمد ذوالفقار علی امجدی


واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا واذكروا نعمت الله عليكم اذ كنتم اعداء فالف بين قلوبكم فاصبحتم بنعمته واخوانا


ترجمہ ۔ اور تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو اوراللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ پیدا کردیا پس اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے 


اس آیت کریمہ میں ان افعال و حرکات کی ممانعت کی گئی ہے ہے جو مسلمانوں کے درمیان تفریق کا سبب ہوں چنانچہ فرمایا گیا کہ   تم سب مل کر  اللہ عزوجل کی رسی کو  مضبوطی سے تھام لو  اور آپس میں میں فرقوں میں  تقسیم  نہ ہو جاؤ جیسے  یہود و نصاریٰ نے  فرقے بنا لیے۔ یاد رہے کہ اصل راستہ اور طریقہ مذہب اہل سنت ہے اس کے سوا کوئی اور راہ اختیار کرنا دین میں تفریق کرنا ہے اور یہ ممنوع ہے اس لیے حکم یہ ہے کہ جس راستے پر مسلمان چلتے آ رہے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے جاری ہے اور سنت سے ثابت ہے اس سے نہ ہٹو۔اور سمجھایا اس کو جائے گا جو اس سے منحرف ہو نہ کہ اسے جو  اصل طریقے پر چلنے والا ہے کہ اس سے کہا جائے کہ تم اپنا طریقہ چھوڑ دو ۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک خاندان اتفاق و اتحاد کے ساتھ صحیح اصولوں پر زندگی بسر کر رہا ہو ۔اُن میں ایک فرد غلط راہ اختیار کرکے  انتشار پیدا کرے تو اس جدا ہونے والے کو سمجھایا جائےگا  نہ کہ خاندان والوں کو بھی اتحاد ختم کرکے غلط راہ اختیار کرنے کو کہا جائے


امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کے عہد میں  برصغیر میں اعتقادی فتنوں کا سیلاب آ چکا تھا غیر مقلدیت دیوبندیت۔ قادیانیت ندویت۔ نیچریت و دیگر فتنے عروج پر تھے ۔  امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے نظم و نثر ہر دو  صف کے ذریعے قوم مسلم کو عشقِ مصطفوی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ بر صغیر کی فضا عشقِ محمدی و محبت مصطفوی کی خوشبو سے مشکبار ہو گئی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے نے اپنی علمی وجاہت و فقیہانہ کروفر اور عارفانہ جاہ و جلال کے باعث  ہر دور میں ممتاز اور یکتاے روزگار رہے فقہ تصوف اور ادب میں ان کی خدمات کا کوئی بدل شاید ہی کہیں ملے ۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی ذات نے جس طرح گلستان علم وفن کی آبیاری ۔چمنستان شعر و سخن کی سر سبزو شادابی اور میکدہ عرفان کو آباد رکھنے میں خون و جگر صرف کیا ہے اسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی

آج بڑے لخلخہ سے تکفیری مہم، تکفیری ٹولہ، شدّت پسند ، متشدد جماعت کے الفاظ رسائل و جرائد سوشل میڈیا پر اچھالے جا رہے ہیں مقصود انتشار کے آزار سے اُمّت مسلمہ کو بچانا نہیں بلکہ اپنے اندر کے بخار اور دوسرے کی مقبولیت سے اپنی بیزاری کا اظہار ہے ، اس طرح کی مہم اُن افراد کے ذریعے سامنے آئی ہے جسے دین میں تصلب اور مسلکی اور مذہبی حدود کی پا بندی نا گوار گزری ہے ۔ جو شریعت کو اپنی پسند  کا پابند بنانا چاہتے ہیں اور طبیعت کو شریعت پر غلبہ دینا جن کا مقصود ہے ، یہ ہنگامہ مختلف حلقوں سے اسی طرح کیا جا رہا ہے جس طرح انگریزوں نے افواہ پھیلا کر ملک میں بد امنی کی فضا پیدا کر دی تھی، انہیں اگر اپنی تاریخ معلوم ہوتی ، اپنے گھر کے بزرگوں کے احوال معلوم ہوتے اور عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی کی گئی سازش کا علم ہوتا تو وہ اپنے محسن کے خلاف زبان کھولنے کے بجائے انکا درد سمجھتے اُن کے مشن کا حصہ بنتے اور اسلام و سنت کو بد عقیدگی ،مداہنت اور صلح کلیت سے محفوظ رکھنے میں انکی معاونت کرتے 

مگر جماعتی بغاوت کا جنون ،خانقاہی چشمک ،خاندانی تعصب اور معاصرانہ منفی رویہ نے اُن کی آنکھ پر پٹی باندھ دی ہے ۔یہ نہ حق سن سکتے ہیں اور نہ اسے قبول کر سکتے ہیں ۔ ایسے میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کی حقیقت اور ان کے محاسبانہ روش کو سمجھانا کیسے ممکن ہے۔


یہ بہت بڑا المیہ ہے کے کہ ہندوستان میں مغلوں کے دور سے اسلام کے خلاف فتنوں کے اٹھنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ  آج تک قائم ہے٫ اکبر کے دور میں دین الہی کا فتنہ اٹھا تو حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور بالخصوص حضرت مجدد الف ثانی رحمہما اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی سر کوبی کی ، اس دور میں بھی بے دینی راہ روی کے ذمہ دار اکبر کے درباری ملا ابو الفضل اور فیضی ہی تھے ۔ مگر حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے اپنے مکتوبات و تصانیف اور علمی جد و جہد سے اس فتنے کا کامیاب مقابلہ کیا ۔ وہ فتنہ تو اس وقت ختم ہو گیا مگر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے دور میں فتنوں کے سر ابھارنے کا دور تھا ۔ وہابیت ، دیوبندیت ، نجدیت ، قادیانیت ، غیر مقلدیت ، ندویت اور دیگر فتنوں نے اس عہد میں جس طرح دین و سنت پہ حملے کئے اس کی نظیر ماضی قریب میں نہیں ملتی ۔ مگر پرور دگار عالم نے ان فتنوں کے سر کوبی کے لیے اس عہد کے علماء و مشائخ بالخصوص اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کو پیدا فرمایا اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح انھوں نے اپنے کردار و عمل ، تصنیفات وفتاویٰ اور مکتوبات و ملفوظات کے ذریعے ان تمام فتنوں کا مقابلہ کیا ۔ 

           تاریخ اعلیٰ حضرت کی علمی و مذہبی خدمات کے ساتھ ان کی مجاہدانہ کارکردگی کی بھی معترف سیف و قلم دونوں سے جہاد و احقاق حق اسی ذات کا طرۂ امتیاز ہے ۔ یہ وہی ذات ہے جس نے ہر دور میں مسلمانوں کے مذہبی وملی حالات پہ نگاہ رکھی اور ان کے دین و ایمان کے تحفظ اور اسلام وسنیت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے کوشاں رہی ۔ عہد حاضر کا مذہبی ماحول بھی فتنوں سے خالی نہیں اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اکبر کا "دین الٰہی"  ٹکڑوں میں بٹ کر آج بھی زندہ ہے اور جب تک ہوش و حواس کا بازار گرم رہےگا یہ فتنے بھی موجود رہیں گے۔

          دور جدید کے فتنوں میں دو بڑے فتنے جو بڑی تیزی کے ساتھ عروج پر آرہے ہیں ان میں سے ایک کا نام منہاجیت اور دوسرے کا نام صلح کلیت ہے ۔ جس کا سب سے بڑا مرکز سراواں الہ آباد ہے ۔ دنیا آج دونوں ٫ سنیت نماں  فتنوں سے اس طرح دوچار ہے کہ درمیان میں کھڑے افراد کے لیے حق کی شناخت بظاہر مشکل ہو گئی ہے ۔ یہ دونوں فتنے بنام اسلام اور بنام اہلسنت ہیں ۔ 

         ماضی قریب و بعید میں جس طرح تقلید کی بنیاد پر وہابیہ اور دیابنہ کی شناخت مشکل ہو گئی تھی اسی طرح آج معمولات و مراسم کی بنیاد پر اہل سنت وجماعت اور منہاجیت و صلح کلیت کی شناخت مشکل ہو گئی ہے۔

           مگر جس طرح رات کی تاریکی میں صحیح راستہ نظر نہ آئے تو اس سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ غلط راستہ بھی صحیح راستہ ہے ۔ اسی طرح مراسم و معمولات کی بنیاد پر اگر گمراہوں سے حق کی تمیز مشکل ہو جائے تو اس سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ سب جماعت ناجی پر اور صراط مستقیم پر گامزن ھے

               دین اور بے دینی کے درمیان مصالحت کے لئے بعض اہل ہوس نے " صلح کلیت و ندویت"  کی بنیاد رکھی تھی ، ایک صدی قبل اس فتنے کے خلاف پورے ملک کے علما و مشائخ نے صداے احتجاج بلند کیا۔ اس کے خلاف تحریکیں چلائیں ، کتابیں لکھیں ، اس کے دام فریب سے بچنے کے لیے مختلف شہروں میں بڑے بڑے اجلاس کئے ، جس کی پیشوائی تاج الفحول مولانا شاہ عبد القادر بدایونی اور امام اہلسنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے کی ۔ اس وقت کے تقریباً تمام بڑی خانقاہوں کے مشائخ نے بھی اسے وقت کی آواز سمجھتے ہوئے اسکی پشت پناہی کی ، اسے اپنے تعاون سے مستحکم کیا ، اور اپنی دعاے نیم شبی سے اسے اتنا پر اثر کیا کہ وہ فتنہ جو تحریک کی شکل میں اٹھا تھا ایک مدرسہ میں سمٹ گیا اور مسلمانوں کو اس سے نجات مل گئی ۔

مگر اس وقت کا المیہ ہی کہا جائے گا کہ ایک صدی گزرتے گزرتے پندار نفس کے شکار ،بعض افراد نے سو سال کی جد وجہد پر پانی پھیرنا شروع کردیا انھوں نے اپنی طبعی تقاضے کے تحت  "صلح کلیت" کا معنی و مفہوم بدل دیا بلکہ اس لفظ سے ہی انکو انقباض ہونے لگا۔ 

    اب کوئی ایمان و کفر کو یکجا کر دے ، اچھے اور برے کو  ایک سمجھے، بد عقیدوں اور خوش عقیدوں کو ا یک ہی خانہ میں رکھے ، جن سے دور رہنے کا حکم ہے ان سے دوستی کرے ، اور جن سے سلام و کلام منع ہے اس سے رشتہ داری کرے ، معاذ اللہ ، ان کے نزدیک وہ سچا مسلمان ہے اور اسی کو مقاصدِ شریعت کا ادراک نصیب ہوا ہے۔

        کل کی بنسبت آج دین سے بے رغبتی ، دین میں مداہنت اور دین کے خلاف بولنے والے افراد زیادہ اور حق کی آواز بلند کرنے والے کم ۔ دین میں آسانی اور سہل پسندی کے دلدادہ زیادہ ہیں اور تقویٰ و طریقت بلکہ شریعت کے آگے سر خم کرنے والے کم ایسے میں اگر حق کی کوئی آواز بلند ہوتی ہے تو کشتہ تیغ نفس بیک زبان " تکفیری ٹولہ "  شدت پسند ، متشدد جماعت کہہ کر اس حق کی آواز کو دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ وہ لوگ چلمن کے اوٹ سے ایسے لوگوں کی خاموش حمایت کر رہے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ نفس پرستوں کا کوئی دھرم نہیں ہوتا ۔ وہ اپنے مطلب کے لیے روز اپنا قبلہ بدلتے ہیں اور بدلتے رہیں گے آج جو افراد سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی مخالفت اور ان کے کردار کشی پہ کمر بستہ ہیں کل ان کے دامن تقدس تک یہ پنجۂ خون پہنچے گا اور اس وقت سوائے آہ و فغاں کے وہ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے واضح رہے کہ باطل کے مقابلہ میں حق ہمیشہ سرخرو رہا ہے اور رہےگا ۔ آج حق کی علامت اور صلح کلیت کی یلغار کے مقابلہ میں حق کی آہنی دیوار کا نام حضور سرکار اعلیٰ حضرت ہے۔ یہ دیوار سلامت ہے تو دین کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنے بھی ناکام رہیں گے ۔ اور آج تک ناکام ہیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے