'' مجاہد آزادی علامہ کافی علیہ الرحمہ ''
آبروے اہل حق ، پیکر استقامت، سلطان نعت گویاں ، مجاہد آزادی 1857ء حضرت علامہ سید کفایت علی کافی مرادآبادی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت
نہ بھولے گا جہاں، وہ "دار" پر نغمہ کفایت کا
سخن کی آبرو ہے آج بھی لہجہ کفایت کا
فنا کی حد سے باہر ان کی خودداری کا ہے جوہر
لباسِ موت میں کردار ہے زندہ کفایت کا
ترانہ عزم و ہمت کا لکھا، پھانسی کے پھندے پر
بلالِ مصطفیٰ سے ملتا ہے شجرہ کفایت کا
سلاموں کے گہر ، اُس مردِ حُر کی استقامت پر
شجاعت خیز ہے اب تا ابد قصّہ کفایت کا
لہو دے کر زمینِ ہند کو گلزار فرمایا
شہیدانِ وطن میں رنگ ہے اعلی کفایت کا
خدا کی رحمتیں، دین و وطن کے اُس مجاہد پر
گلِ آزادی ہے ، ہر ایک نقش پا کفایت کا
ضمیر اپنا نہ بیچا ، حق پرستی پر رہے قائم
اصولِ رہبری کا چرخ ہے ، رستہ کفایت کا
چراغ حق نوائ لے کے طوفاں کو ہزیمت دی
نشانِ جرأت حسنین ہے اسوہ کفایت کا
کہا "سلطانِ اہلِ نعت" اُن کو اعلیٰحضرت نے
نبی کے عشق سے روشن ہے یوں خامہ کفایت کا
رقم ہیں بلبل و گل کی زباں پر عظمتیں ان کی
نہ کم ہوگا دیار ہند سے چرچا کفایت کا
چلو ہم ان کی سیرت کو بنائیں مشعلِ ہستی
تَنِ فکر و عمل پر اوڑھ لیں جامہ کفایت کا
وہ تیور جس سے کٹ جاتی ہیں مایوسی کی زنجیریں
فریدی منتقل ہو قوم میں ورثہ کفایت کا
0 تبصرے