الفت یار میں جو باب قضا تک پہنچے

 الفت یار  میں جو باب  قضا تک پہنچے

بس وہی لوگ حقیقت میں بقا تک پہنچے


طائر فکر کبھی جا نہیں سکتا ہے جہاں

سیروتفریح میں اس جا وہ خدا تک پہنچے


نوشہ بزم دنی بڑھ گئی دیدار طلب

جلوہ حسن  ترا چشم نما تک پہنچے


شدت ہجر میں کر ایسی تو شدت پیدا

سوزش دل کی تڑپ روحی فدا تک پہنچے


بخت خوابیدہ  مرا تشت کبودہ چمکے 

سر کبھی کاش جو نقش کف پا تک پہنچے


طائر فکر مرا نعت میں ہے محو سفر

یا الہی یہ سفر یوں ہی قضا تک پہنچے


چشم الطاف جو اک بار وہ فرمائیں کبھی

طائر فکر مرا چرخ ثنا تک پہنچے


فکر کی دوش پہ ہم شوق جنوں کو رکھ کر

"سبزِ گنبد کی پر انوار فضا تک پہنچے "


شوق دیدار نے بے چین کیا ہے دل کو

چشم مشتاق شہا بابِ لقا تک پہنچے


گلشن نعت سے تمدیح کی خوشبو لینے

ہم ثنا خوان نبی باغ ثنا تک پہنچے


میگساران وفا بادۂ وصلت پینے

چشم بے تاب لئے شہر وفا تک پہنچے


خاک پرنور لگالے جو مریض غمگین

غیرممکن ہے کہ وہ پھر سے دوا تک پہنچے


چرخ الہام سے اک صیغہ مدحت آقا

فکر" احسان" کی زنبیل ثنا تک پہنچے


سونگھنی ہو جسے فردوس کی خوشبو احساں

شہر طیبہ کی وہ  پر کیف صبا  تک  پہنچے


محمد احسان اللہ احسان علیمیؔ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے