حضور شعیب الاولیا شیداے اعلیٰ حضرت

 حضور شعیب الاولیا شیداے اعلیٰ حضرت 


خلیل احمد فیضانی


 اپنے اسلاف سے محبت کرنا اور ان کی حیات وخدمات کو مطالعہ کرکے عام کرنا باوفا لوگوں کا شعار اور نشانی ہوتی ہے۔جو ان سے محبت کرتے ہیں  اور محبت کرتے کرتے ان پر دل سے شیدا ہوجاتے ہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ  وہ خود بھی ان بزرگوں کے طفیل نمونہ اسلاف بن جاتے ہیں اور دنیا ان کے گیت گانے شروع کردیتی ہے۔ ماضی قریب میں ایک علمی و روحانی شخصیت  امام اہل سنت الشاہ  امام احمد رضا  خان محدث بریلوی قدس سرہ العزیز کی گزری ہے۔ آپ کو اپنے اسلاف سے گہری اور سچی عقیدت ومحبت تھی آپ کی اسی عقیدت والفت کا نتیجہ ہے کہ آپ کے اخلاف آپ پر آج پروانہ وار نثار ہونے کو تیار ہیں۔ ہر سنی عالم دین فکر رضا اور تعلیماتِ رضا کی زلفوں کا اسیر ہے۔

            یوں تو ہر سنی عالم دین آپ(اعلیٰ حضرت) سے بے پناہ عقیدت ومحبت رکھتا ہے مگر آج میں تذکرہ کرنے لگا ہوں  اس شخصیت کا کہ جو خود نمونہ اسلاف تھی۔ جن کے روں روں سے محبت کا سیلاب امڈتا تھا۔ جی!  میری مراد شیخ المشائخ، شعیب الاولیا صوفی باصفا حضرت مولانا صوفی محمد یار علی صاحب قادری چشتی علیہ الرحمۃ والرضوان کی ذات بالا صفات ہے۔ آپ علیہ الرحمہ کو دیگر بزرگوں کی بہ نسبت  سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ سے بڑی گہری عقیدت ومحبت تھی۔مسلک اعلی حضرت پر بڑی سختی اور ثابت قدمی کے ساتھ قائم تھے۔

             حضور اعلی حضرت قدس سرہ سے آپ علیہ الرحمہ کی ظاہری حیات میں  کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی آپ سلسلہ رضویہ میں بیعت تھے مگر آپ نے اپنی ذات کو امام اہل سنت کے مسلک کے مطابق شریعت وسنت کے ڈھانچہ میں ڈھالا ہوا تھا۔آپ کی ساری زندگی مسلک حضرت کی ترویج و اشاعت میں گزری۔ آپ کے اس استقلال اور عقیدت کی لو میں مزید تپش تب آئی جب حضور شیر بیشہ اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی حافظ قاری الحاج محمد حشمت علی خاں صاحب لکھنؤی ثم پیلی بھیتی علیہ الرحمہ سے آپ کی ملاقات ہوئی اور ایک عرصہ انہیں بستی،گونڈہ اور فیض آباد کے جلسوں اور مناظروں میں  اپنے ہمراہ لے کر دورہ فرمایا۔اس صحبت مسعودہ کی برکت نے حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی عقیدت کو آپ کےدل میں مزید بسا کر آپ کے دل کو تاباں کردیا۔ آپ کی مسلک اعلیٰ حضرت سے عشق و وارفتگی  کی یہ کیفیت تھی کہ براؤں شریف کے "سالانہ اجلاس" اور "ربیع الاول شریف" وغیرہ میں جو کتب فروش اعلیٰ حضرت کی تصنیف کردہ کتابیں لے کر آتے تو آپ علیہ الرحمہ ان سے سینکڑوں کی تعداد میں کتب ورسائل خرید کر ضرورت مندوں علماے کرام کےدرمیان تقسیم فرماتے۔

                بھارت کے مزارات اولیا کی حاضری کے مقصد لئے کیے گئے  مبارک و مسعود سفر میں جب آپ بریلی شریف اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کے مزار پر حاضر ہوئے تو فاتحہ خوانی کے وقت آپ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی آنکھیں بند تھیں اور  رخسار آنسوؤں سے تربتر تھے۔اس پرکیف واقعہ کو خود حضرت شعیب الاولیا علیہ الرحمہ نے اس طرح بیان فرمایا ہے : کہ اعلی حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمہ کے مزار پرانوار پر حاضری و فاتحہ و خوانی  کے وقت مجھ پر ایک گہری کیفیت طاری ہوگئی تھی۔جس کا نقشہ میں الفاظ میں نہیں کھینچ سکتا۔عارف باللہ عالم باعمل عاشق رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مجدد دین و ملت کو اس عالم میں گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا

حضور شعیب الاولیا کی زندگی عشق امام سے عبارت تھی کیوں کہ امام اہل سنت اور شعیب الاولیا میں عشق رسول وہ قدر مشترک تھی کہ جس نے حضور شعیب الاولیا کے دل میں امام اہل سنت کے تٔیں بے پناہ محبت و عقیدت پیدا کردی تھی۔ اس لئے آپ  اپنی زندگی کے ہر موڑ پر چاہے عقیدت مندوں کا ہجوم ہو یا خلوت وتنہائی  امام اہل سنت سے شدید وابستگی کا اظہار کرتے اور اپنے خلفا,متوسلین اور مریدین کو مسلک اعلی حضرت پر چلنے کی تاکید فرماتے رہتے۔امام سے آپ کی عقیدت محض عقیدت نا تھی کہ صرف عرس میں حاضر ہوکر سبکدوشی حاصل کرلی جائے بلکہ مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت کے لیے آپ نے بھرپور جد جہد بھی فرمائی۔اور صرف اسی پر قناعت نہ کی اس سلسلے میں بھرپور سرگرمی لانے اور ٹھوس و مضبوط انداز میں مثبت تعمیری پیش رفت کے لیے ایک دینی ادارہ بنام " دار العلوم فیض الرسول" بھی قائم فرمایا جس کی ضیائیں آج بھی اطراف عالم کو تابناک کررہی ہیں۔

         آج اس قلعہ سے فکر رضا،یاد رضا، ذکررضاعشق رضا اور تعلیمات رضا کے تذکرے جسد سنیت کے  مشام کو معطر معطر کررہے ہیں۔

آپ یقینا عاشق اعلی حضرت تھے،شیداے اعلی حضرت تھے۔ جس کا واضح ثبوت بعد وفات آپ کےآستانہ  کے دروازہ پر نصب سنگ مرمر کی تختی پر آپ کے نام کے ساتھ "شیداے سرکار اعلیٰ حضرت " کی عبارت فاضل بریلوی کی مقدس ذات کے ساتھ بے پناہ وابستگی کا اعلان کر رہی ہے۔اللہ تعالی ان کے مرقد انور پر انوار وتجلیات کی برکھا برسائے اور ہم عاصیوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

کہ بقول امام عاشقاں:

ترے غلاموں کا نقش قدم ہے راہ خدا 

وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے